Slider

Menu :

Latest News

WordPress Per Website Banayen

Blogroll

Pages

Animation Trailers

top header advertisement in header

Pak Urdu Installer

Text Widget

Recent news

Video Widget

Recent Tube

Wisata

News Scroll

Favourite

Event

Culture

Gallery

آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟

کیا ہو گیا ہےپاکستانی نوجوان کو، کیااس کیپسند، ترجیح، مشغلہ اور وقت صرف کرنے کا زریعہ صرف انڈین گانے سننا، شعر و شاعر ی کرنا (sms)، یا پھر اس سیاست پر باتیں کر کے اپناقیمتی وقت ضائع کرنا، جس کا آپ حصہ نہیں اور نہ ہی کبھی کسی ادنی درجہ کے لیڈر تک کوئی رسائی ہے(بیشتر نوجوان مراد ہیں)۔

دوسری طرف وہ نوجوان ہیں جو جس جگہ نوکر(Job) ہوگئے،بس اب پنشن تک اسی کوہلوکے چکر کاٹنا ہی زندگی کا مقصد رہ گیا؟۔

وہ حضرات جو کسی بھی شعبہ سے منسلک اپنے علم اور ہنر کے استعمال سے قوم و ملک کی خدمت کر رہے وہ قابل تحسین تو ہیں مگر اپنے اوپر مزید سیکھنے، پڑھنے اور غور و فکر کے دروازے بند کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ وہ احباب جو یہ سمجھتے ہیں  یا انکی زندگی،مصروفیات اور ترجیحات کو دیکھ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی زندگی کامطمح نظر ہو کہ،اب ہمیں مزید کچھ نہیں پڑھنا،سیکھنا، سوچنا، جو ہم کر رہے ہیں‌ بس وہی کافی و شافی ہے۔

زندگی کا مقصد، اگر صرف مرنے تک جینا، گھربار کے لیے رزق کی تلاش میں دوڑ لگانا ہو تو یہ بڑا مقصد نہیں ہے۔ مقصد عربی زبان کا لفظ ہے اور قصد سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا‘ کسی چیز کی طرف جانا،اور اس چیز کی جستجو میں ہمہ وقت لگے رہنا۔انسان اگر اپنے مقصد کو سمجھ جائے تو  پھر اسی کی طرف متوجہ اور اسی راہ پر گامزن رہتا ہے 

زندگی اور زندگی کے مقصد پر مجھے جتنے مضمون ملے وہ یا تو مذہبی انداز کے تھےیا پھر باعمل ،باہمت،اور تاریخ کے عظیم کرداروں کی زدگی کی داستان پر مشتمل تھے۔ مگر ہمارے سامنے تو پاکستانی، موجودہ، زندہ اور ہٹا کٹانوجوان اور مستقل کا سہارا ہے ، آخر اس کو زندگی کا کون سا گر سکھایا جائے کہ وہ بخوشی اسے اپنا مقصد حیات بنا لے۔ اور بنائے تو کیسے بنائے اور کرئے تو کیا کر ئے ؟

زندگی کے مقصد کے بارے میں بڑے متضاد جواب پائے جاتے ہیں، ہر صاھب علم اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق جواب دیتا ہے۔مگر میرے خیال میں ہمیں زندگی کے مقصد کا تعین کرتے ہوئے اپنی تخلیق کا وقت اور جگہ پیدائش ضرور زہن نشین رکھنی چاہیے۔ تاکہ ہم اس سوالی کے جواب میں یہ مدنظر رکھیں کہ وہ کس علاقے کا بانشندہ ہے اور اس کو کیا حالات و مشکلات سے واسطہ ہے۔اور اس کی زندگی کا مقصد اور ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟ 

زندگی بےمعنی اور بے مقصدبالکل نہیں ہےبلکہ زندگی کا مقصد معلوم نہ ہونے کا تعلق صرفبے علمی سے ہے۔اگر ہمیں زندگی اور مقصد،دونوں الفاظ کا علم ہی نہ ہو تو،تعین کیسے ہوگا؟۔ سادہ الفاظ میں ، اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں‌جواب دوں گا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ’’ماں کی گود سےقبر میں اترنے تک، علم کی جستجو میں‌لگے رہو‘‘۔لہٰذا ربی زدنی علما کی دعا کے ساتھ ہی علم کے حصول کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیں۔ 

 زندگی عمل کا،مسلسل چلتے رہنے، بڑھتےاور سیکھتے رہنے کا نام ہے۔ بے شک اس وقت ملک عزیز اور امت مسلمہ گھمبیر مسائل کا شکار ہے ۔ مگر ان مسائل اور مصائب سے نکالنے کے لیے یقینا،سب سے زیادہ زمہ داری نوجوان نسل پر ہیپر ہی عائد ہوتی ہے ۔ آج اگر نوجوان نسل نے اپنے اردگرد کے حالات سے بے خبری ظاہر کی تو ہمارا کل، آج سے بھی برا ہوگا۔ ہم سب کواس سلسلے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کرنی چاہییں، بالخصوص اپنی سوچ اور علم کو وسیع ترکرنا ہوگا۔ 

دوسرے کو تلقین کرنا اور خود بیٹھے رہنااچھا نہیں، آج کا مضمون ’’بحیرہ روم اورملحقہ بندرگاہیں‘‘لکھنے کے لیے مجھے بہت کچھ پڑھنا پڑا،بحیرہ روم کا حدود اربعہ، جغرافیائی کیفیت و نشاندہی، ملحقہ ممالک کی تفصیل اور بندرگاہوں پر تحقیق کرنا پڑی۔ مشہور ویب سائٹس سے مواد لیا، اس کا ترجمہ کیا اوراپنی اس ویب سائٹ پر شائع کر دیا۔ کیوں؟

 کیوں کہ میں سمجھتا ہوں یہی وہ آخری حل سے جس سے ہماری سوچ،سمجھ،فکر، شعور میں‌بہتری آئے گی۔اوریہی ایک آخری طریقہ ہے کہ خود بھی علم کی جستجوں میں رہیں اور دوسروں کےلئے بھی مواد پیش کریں۔یہ علمی اور قلمی جہاد اس لئے بھی ضروری ہیں کہ، ہمارے نادیدہ دشمن کی پوری پوری کوشش اس جانب ہے کہ کس کس ہتھکنڈے اور غیر محسوس طریقے سے،پاکستانی نوجوان کو برین واش کیا جائے،زیادہ سے زیادہ وقت ضائع کیا جائے,اس کی ترجیحات اور خواہشات کو بدلا جائے۔

بحیرہ روم کہاں ہے اور اس سے منسلقہ ممالک اور بندرگاہوں کی تفصیل جاننے کیلئے، یہاں پڑھیں۔ دوسرے سے شئیر بھی کریں۔ 


Qanoon-e-Qudraat aou Insani Ikhtiayar


آج صبح 4:30بروز جمعہ،6ستمبر 2013میں زندہ ہوں، الحمدللہ۔ یہ زندگی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ بلاشک و شبہ میں ایک صدی پہلے اسی تاریخ 6ستمبر 1913کو اس دنیا میں موجود نہیں تھا، اور یقینا ایک صدی بعد 6ستمبر 2113کو اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گا۔ 

غور کریں تو یوں سمجھ آتی ہے کہ تمام انسانیت کی طرح ہمارے اوپر بھی ایک
 وقت ایسا گزرا جب ہم کچھ بھی نہ تھے، پھر ایک وقتِ مخصوص یا زمانہ میں جب اللہ نے چاہا تو پیدائش ہوئی، مرد ہونگے یا عورت، یہ سلیکشن بھی اوپر سے کر کے بھیج دیا گیا، اور کچھ وقت،زمانہ یا عرصہ گزارنے کے بعد یہ زندگی واپس لے لی جائے گی۔ 

۱۔ گویا یہ قانون ِ خداوندی ہے کہ وہ ایک قوم کے بعد دوسرے قوم یاامت نازل (پیدا)کرتا ہے۔ اس سے کام لیتا ہے ان میں سے کچھ امیر، کچھ غریب کچھ فوجی،کچھ تاجر،دانشور،مذہبی اور کچھ انتہائی غریب ہر طرح کے لوگ ہر دور اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

۲۔ پھر دوسری تقسیم میں ہمیں یہ اختیار نہیں کہ ہم عرب کے شیخ گھرانے میں پیدا ہوں یااٹلی کی کسی طوائف کے گھر۔ پاکستان کے کسی چوہدری، ملک یا میمن کے گھرانے میں یا کسی روسی، جاپانی یا برطانوی شہزادے کی صورت میں جنم لیں، مرد ہوں یاعورت کاروپ ملے، یہ ساری تقسیم بھی اللہ کی ہے اور ساری دنیا کے تمام بچوں اور انسانوں کے لیے یہی قانون قدرت ہے۔ 

۳۔ اب ہم زندہ اور موجود ہیں کسی بھی ملک میں کسی بھی خاندان، نام اور زبان کے ساتھ تو اگلا قانون یہ سمجھ میں آتاہے کہ چل میرے آدم کے بیٹے اب ہمت کر، جو کچھ میں نے تجھے بنا دیا اب اس پر صبر کر، رونہیں، خوشی منا، اور میری حکمت، سلیکشن،چوائس کے خلاف نہ بول، شور نہ کر اور چپ کر کے اپنے حصے کاکام کر۔

۴۔ یا اللہ، اے God، ایشور،میرے دیوتا (ہر مذہب، زبان، تہذیب،مسلک اور ہر 
انسان کا ایک نہ ایک رب یا اللہ، الٰہ ضرورہوتاہے)جہاں جس کی پیدائش کی گئی اور اسے وہاں ماحول اور تعلیم ملی وہ اسی رنگ میں رنگ گیا۔ کوئی مسلمان، کوئی یہودی، عیسائی، بدھ اور کچھ نے تو رب کی ذات کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔مگر یہ رب سب کا رب ہے وہی ہے جو ”رب العالمین“ہے۔

۵۔ چلیں مان لیا، تسلیم کر لیا دنیا کے ہر انسان نے کہ وہ پیداہو چکا ہے، بیسویں صدی اپنے نئی ترقیوں کے ساتھ چل رہی ہے اور ہم اس صدی کے آغاز میں میدا ن میں اتار دیے گئے ہیں، اور ہم اس وقت پاکستان کے ایک عدد مرد شہری ہیں تو کیا کریں؟۔اب علم حاصل کرو،اب نیند سے جاگواور پڑھو، تم سے پہلے کون کون آیا، کہاں کہاں آیا، کتنی تہذیبیں، کتنے انبیاء، کتنے فرعون،کافربدترین اور چور، ڈاکو، سائنسدان، اور مفکرین ارسطو، لقمان ہم نے پیدا کئے۔ اس دنیا کے نظام ِفطرت، نظام سیاست، معاشرت، حکمت و حکومت، کو پڑھو، سمجھو، یہ سورج کی گردش یہ دن رات، چاند ستارے، یہ غربتیں، عیاشیاں، زمین پر انسانوں کا جم غفیر کیا کر رہا ہے اس پر سوچو، غور و فکر کرو، مگر جلدی کروکہ تمہارا وقت مختصر ہے۔
۶۔ یا رب یہ کیا بنا دیا؟، کہا ں پھنسا دیا، گویا جب ہم پیدا ہوئے، سوچنا شروع کیا، سمجھ آنے لگی تو اپنے رب سے ہی جھگڑ پڑتے ہیں سب۔کبھی دل ہی دل میں، تو کبھی ماں باپ، اپنے استادوں، پروفیسروں اور مذہبی علماء سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے، یہ نا انصافی کیوں ہے، دنیامیں غربت اور جنگیں کیوں ہیں، یہ مارا ماری اور عیش و عشرت کیوں ہے۔

دیکھئے یہ سارا علم اور سمجھ ہی کا فتور ہوا نا،کہ سمجھ آئی تو چیخیں نکل گئیں۔ اپنی اسی انسانی کیفیت و حالت کو اللہ کی کتاب میں لکھا دیکھا تو چپ لگ گئی کہ ہماری تو نیچر ہی ایسی ہے۔ جب چپ لگی تو رب، Godیا ایشور نے پکارا کے اے آدم کے بیٹے اٹھ اور میرے نظام کو سمجھ، کمر کس اور کھڑا ہو جا وہ کر جو میں چاہتا ہوں،میری حکمت کو چیلنج نہ کر اور وہی کر جو مجھے تجھ سے کام لینا ہے۔ تمہارا وقت اور حالات مخصوص ہیں، الگ ہیں تمہیں ہم نے نیا میدا ن، نیا ماحول دیا ہے، اب اپنی سمجھ استعمال کر، اور ہماری مشیت پوری کر۔ 

۷۔ اب دنیا کا ہر انسان اٹھے گا، اگر اب بھی نہ اٹھا تو خدا یا فطرت اسے زبردستی اٹھا ئے گئی، اٹھنے پر مجبور کرئے گی، اگر انسان خدا کے نام، تصور اور وجود سے ہی انکار کر دے، اور مذہب کو پس پشت ڈال دے،نماز،روزہ اورمذہب کی تمام حدیں بھول جائے، پھر بھی اسے اٹھنا ہوگا، اسے پیٹ کی خاطر کام کر نا ہوگا،وہ پڑھے گا، اپنے بچوں کو پڑھا ئے گا، سکھائے گا، پیٹ کے لیے وہ ڈاکٹر، وکیل،سائنسدان، وزیر بنے گا اور یوں خد کی مشیت اور مرضی پوری ہوگی۔ یہ ہے نظام قدرت۔ 

گویا ضرورزبردستی اور اپنی مرضی کے خلاف جب ہم پیدا کر دئیے گئے تو اسی کو مان لیں، راضی رہیں، سمجھیں اور کام کریں، ہمت کریں اور فضو ل سوچنے کے بجائے جب تک زندہ ہیں زندہ رہنے اور زندگی میں خوشیاں بھرنے کی جستجوں و اہتمام کریں۔ 

آج پیارے پاکستان کے حالات سخت خراب ہیں، کراچی کے حالات درست کرنے کیلئے ذولفقار چیمہ کا نام لیا گیا تو تمام سیاسی پارٹیاں چیخ پڑیں کہ وہ تو بڑا سخت انسان ہے۔ بھئی سخت ہے تو سختی کرنے سے سکون کس کو ملے گا؟ ہم شہر والوں کو ہی آئے گا۔ مجھے یہ سن کر بے اختیار حضرت عمر فاروق ؓ یا د آنے لگے کہ جن کی سختی تو مشہور ہے اور اسی سختی سے ہی مسلمان معاشرہ سیدھا رہتا ہے، امن و سکون ہو تو رب کی عبادت اور مخلوق کی خدمت ہوگی۔ یاد رکھیں حکمران یا کسی محکمے کا افسر جب بااختیار ہوگا اور اسے اپنے کام کو پرفیشنل طریقے سے کرنے کی پوری اجازت ہوگی تب ہی وہ کوئی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہر کر پا ئے گا۔ آپ ؓ ایک بااختیار خلیفہ تھے اور خالد بن ولیدؓ جیسے بڑے فوجی کمانڈر کو ایک ہی حکم کے تحت معطل کر دیا تھا۔اور انھیں بھی اپنے خلیفہ کا یہ حکم ماننے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا۔ اسلام کا یہ مشہور سبق ہمیں یا د دلاتا ہے کہ اس طرح کا اختیار اور قوت جب کسی بھی باہمت اور نڈر ذولفقار چیمہ کو دیا جائے گا تب ہی یہ گند ختم ہوگا اور ملک سکون کا سانس لے گا۔

آج ا قربا پروری اور سب کو خوش رکھنے کی جو سیاست چل رہی ہے یہ کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں، کالی بھیڑیں، جسد انسانی میں اس زخم کی طرح ہوتی ہے جس کو کاٹ پھینکنے سے ہی پورا جسم سکون پاتا ہے۔