جدید سے جدید تر روبوٹس کی تیاریاں جاری ہیں لیکن سائنسدان یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ’ہمیں معاشرے کے لیے فائدہ مند ہونے کی اخلاقی، تعمیری اور مثبت ذمے داری قبول کرنا ہو گی۔‘
جہاں تک جدید تر روبوٹس کی تیاری کا تعلق ہے تو اس شعبے میں اب تک فطرت ہی انسان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ان میں وہ روبوٹ بھی شامل ہیں جنھیں ماحولیات کی بہتری، خطروں سے نمٹنے، نشانہ بننے والوں کی تلاش اور مدد اور سب سے بڑھ کر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔بی بی سی کی سائنس رپورٹر وکٹوریہ گل کی رپورٹ کے مطابق بایو انسپریشن و بایو میمیٹکس نامی جرنل میں ان مختلف تحقیقاتی ٹیموں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا ہے۔
ان میں ایسے روبوٹس بھی شامل ہیں جو شکاری پرندوں کی طرح اپنے ہدف کو مضبوطی سے پکڑ اور اٹھا سکتا ہے اور وہ روبوٹس بھی جو کسی جھنڈ کر طرح ایک ساتھ پرواز کر سکتے ہیں۔
سائنسدانوں اور روبوٹ بنانے والوں کو ایسے روبوٹ بنانے کی تحریک اور حوصلہ افزائی جن پرندوں سے ملی ان میں چمگادڑ، کیڑے اور اڑنے والے سانپ بھی شامل ہیں۔
کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں فضائی روبوٹکس کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ لینٹک کا کہنا ہے کہ جانوروں اور پرندوں سے ملنے والی تحریک ڈرون ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ارتقا نے ان بہت سارے مسائل کو حل کر دیا ہے جو ڈرون انجینیئرنگ کے لیے چیلنجوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔پروفیسر لینٹک کہتے ہیں کہ کمزور ترین کبوتر بھی ایسی دشوار شہری فضا میں باآسانی ادھر سے ادھر پرواز کرتے ہیں جہاں ڈرون اب تک پرواز کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔جریدے میں شائع ہونے والی بعض تحقیقات ایسی ہیں جو بہت سیدھے انداز میں بتاتی ہیں کہ ان چیلنجوں پر کیسے قابو پانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔انہی تفصیلات میں یہ بھی شامل ہے کہ تیز ہواؤں، آندھیوں اور دوسرے ناموافق حالات میں پرندے، کیڑے مکوڑے اور جانور کیا کرتے ہیں۔ ان تفصیلات سے مستقبل کے ڈرونز کے نمونے یا ڈیزائن بنانے میں مدد لی جائے گی۔
پروفیسر لینٹک جسے کیڑوں میں ’پرواز کی حیرت انگیز صلاحیت‘ قرار دیتے ہیں، اُسی کو یونیورسٹی آف میری لینڈ کی کے محققین کی ایک ٹیم محسوس کرنے والے وہ حساس آلے یا سینسر بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے لیے کیڑوں کی آنکھوں کو سینسر تصور کیا گیا ہے۔یہ ’آنکھیں‘ اب وہ کیمرے ہیں جو ڈرون میں لگے کمپیوٹروں سے منسلک ہیں اور اردگرد کی ہر شے یا رکاوٹ کو محسوس کرتے ہیں اور ان سے دور ہونے یا بچنے کے نظام کو چلاتے ہیں۔پنسلوینیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محققین کی ایک ٹیم نے ڈرون میں لگائے جانے والے ایسے بازو اور پنجے بنائے ہیں جن کی مدد سے ڈرون شکاری پرندوں کی طرح تیزی سے چیزوں کو پکڑنے اور اٹھا لے جانے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے کہ کیسے مکھیوں اور کیڑوں کے پر ناموافق ہوا اور رکاوٹوں میں اپنا کام کرتے ہیںشمالی کیرولائنا کی یونیورسٹی کے محققین نے پرندوں، کیڑوں اور چمگادڑوں کی پروازوں کے رازوں کو کھولنے پر توجہ دی ہے۔انھوں نے خاص طور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کیڑوں کے پر بھی بگولوں اور ناموافق ہوا میں اڑنے کا کام کیسے کرتے رہتے ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر کینی بریور کی قیادت میں ایک ٹیم نے پرواز کے لیے چمگادڑوں کے پروں کی لمبائی اور لچک کو ڈرون میں استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔اس میں ان کی توجہ کا مرکز چمگادڑ کے پروں اور بازوؤں میں موجود وہ جھلی ہے جو انتہائی پتلی سی ہوتی ہے اور اس میں اسی وجہ سے انتہائی لچک اور مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔امپیریل کالج لندن میں فضائی روبوٹکس لیبارٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میرکو کوواچ کی ٹیم فی الحال روبوٹس کے ’موبائل سینسر نیٹ ورک‘ یا چلتے پھرتے معلومات جمع کرنے والے آلات پر کام کر رہی ہے۔ ان میں زیادہ توجہ اس بات پر دی جا رہی ہے کہ ڈرون درختوں اور چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کیسے پرندوں کی طرح بسیرا یا قیام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس شعبے میں ہونے والی پیش رفت پر انتہائی خوش ہیں۔اس کے ذریعے ہم ایسے روبوٹ بنا سکیں گے جو ماحولیاتی اور سونامی جیسی آفتوں کے بارے میں معلومات دے سکیں گے۔ ایسی آفتوں میں لوگوں کی تلاش اور بچاؤ کا کام کر سکیں گے۔انھوں نے بتایا کہ ڈرون کا تجارتی استعمال پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے گذشتہ سال تجارتی اداروں کو تقریباً 50 لائسنس یا ڈرون آپریٹنگ اجازت نامہ جاری کیے ہیں۔ان اجازت ناموں کے تحت روبوٹس کی اکثریت فضائی فوٹو گرافی کےلیے استعمال کی جا رہی ہے۔
تاہم ابھی ان ڈرونز کو استعمال کرنے والوں پر پابندی ہے کہ ان کے ڈرون ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
سی اے اے کے ایک ترجمان نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ پابندی اس لیے ہے کہ ابھی ڈرونز میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ رکاوٹوں کو از خود محسوس کر کے اپنا رخ تبدیل کر سکیں۔
ڈاکٹر کوواچ کا کہنا ہے کہ یہ سینسری صلاحیت حاصل ہو جائے تو روبوٹ فضائی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے انتہائی اہم کام کر سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صلاحیت کا حصول انسانیت کے لیے انتہائی مفید اور اہم ہو گا۔
اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’ہمیں معاشرے کے لیے فائدہ مند ہونے اور روبوٹ کے اخلاقی، تعمیری اور مثبت استعمال کی ذمے داری بھی قبول کرنا ہو گی‘۔
جہاں تک جدید تر روبوٹس کی تیاری کا تعلق ہے تو اس شعبے میں اب تک فطرت ہی انسان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ان میں وہ روبوٹ بھی شامل ہیں جنھیں ماحولیات کی بہتری، خطروں سے نمٹنے، نشانہ بننے والوں کی تلاش اور مدد اور سب سے بڑھ کر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔بی بی سی کی سائنس رپورٹر وکٹوریہ گل کی رپورٹ کے مطابق بایو انسپریشن و بایو میمیٹکس نامی جرنل میں ان مختلف تحقیقاتی ٹیموں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا ہے۔
ان میں ایسے روبوٹس بھی شامل ہیں جو شکاری پرندوں کی طرح اپنے ہدف کو مضبوطی سے پکڑ اور اٹھا سکتا ہے اور وہ روبوٹس بھی جو کسی جھنڈ کر طرح ایک ساتھ پرواز کر سکتے ہیں۔
سائنسدانوں اور روبوٹ بنانے والوں کو ایسے روبوٹ بنانے کی تحریک اور حوصلہ افزائی جن پرندوں سے ملی ان میں چمگادڑ، کیڑے اور اڑنے والے سانپ بھی شامل ہیں۔
کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں فضائی روبوٹکس کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ لینٹک کا کہنا ہے کہ جانوروں اور پرندوں سے ملنے والی تحریک ڈرون ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ارتقا نے ان بہت سارے مسائل کو حل کر دیا ہے جو ڈرون انجینیئرنگ کے لیے چیلنجوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔پروفیسر لینٹک کہتے ہیں کہ کمزور ترین کبوتر بھی ایسی دشوار شہری فضا میں باآسانی ادھر سے ادھر پرواز کرتے ہیں جہاں ڈرون اب تک پرواز کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔جریدے میں شائع ہونے والی بعض تحقیقات ایسی ہیں جو بہت سیدھے انداز میں بتاتی ہیں کہ ان چیلنجوں پر کیسے قابو پانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔انہی تفصیلات میں یہ بھی شامل ہے کہ تیز ہواؤں، آندھیوں اور دوسرے ناموافق حالات میں پرندے، کیڑے مکوڑے اور جانور کیا کرتے ہیں۔ ان تفصیلات سے مستقبل کے ڈرونز کے نمونے یا ڈیزائن بنانے میں مدد لی جائے گی۔
پروفیسر لینٹک جسے کیڑوں میں ’پرواز کی حیرت انگیز صلاحیت‘ قرار دیتے ہیں، اُسی کو یونیورسٹی آف میری لینڈ کی کے محققین کی ایک ٹیم محسوس کرنے والے وہ حساس آلے یا سینسر بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے لیے کیڑوں کی آنکھوں کو سینسر تصور کیا گیا ہے۔یہ ’آنکھیں‘ اب وہ کیمرے ہیں جو ڈرون میں لگے کمپیوٹروں سے منسلک ہیں اور اردگرد کی ہر شے یا رکاوٹ کو محسوس کرتے ہیں اور ان سے دور ہونے یا بچنے کے نظام کو چلاتے ہیں۔پنسلوینیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محققین کی ایک ٹیم نے ڈرون میں لگائے جانے والے ایسے بازو اور پنجے بنائے ہیں جن کی مدد سے ڈرون شکاری پرندوں کی طرح تیزی سے چیزوں کو پکڑنے اور اٹھا لے جانے کے قابل ہو جائیں گے۔
اس کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے کہ کیسے مکھیوں اور کیڑوں کے پر ناموافق ہوا اور رکاوٹوں میں اپنا کام کرتے ہیںشمالی کیرولائنا کی یونیورسٹی کے محققین نے پرندوں، کیڑوں اور چمگادڑوں کی پروازوں کے رازوں کو کھولنے پر توجہ دی ہے۔انھوں نے خاص طور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کیڑوں کے پر بھی بگولوں اور ناموافق ہوا میں اڑنے کا کام کیسے کرتے رہتے ہیں۔
براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر کینی بریور کی قیادت میں ایک ٹیم نے پرواز کے لیے چمگادڑوں کے پروں کی لمبائی اور لچک کو ڈرون میں استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔اس میں ان کی توجہ کا مرکز چمگادڑ کے پروں اور بازوؤں میں موجود وہ جھلی ہے جو انتہائی پتلی سی ہوتی ہے اور اس میں اسی وجہ سے انتہائی لچک اور مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔امپیریل کالج لندن میں فضائی روبوٹکس لیبارٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میرکو کوواچ کی ٹیم فی الحال روبوٹس کے ’موبائل سینسر نیٹ ورک‘ یا چلتے پھرتے معلومات جمع کرنے والے آلات پر کام کر رہی ہے۔ ان میں زیادہ توجہ اس بات پر دی جا رہی ہے کہ ڈرون درختوں اور چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کیسے پرندوں کی طرح بسیرا یا قیام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس شعبے میں ہونے والی پیش رفت پر انتہائی خوش ہیں۔اس کے ذریعے ہم ایسے روبوٹ بنا سکیں گے جو ماحولیاتی اور سونامی جیسی آفتوں کے بارے میں معلومات دے سکیں گے۔ ایسی آفتوں میں لوگوں کی تلاش اور بچاؤ کا کام کر سکیں گے۔انھوں نے بتایا کہ ڈرون کا تجارتی استعمال پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے گذشتہ سال تجارتی اداروں کو تقریباً 50 لائسنس یا ڈرون آپریٹنگ اجازت نامہ جاری کیے ہیں۔ان اجازت ناموں کے تحت روبوٹس کی اکثریت فضائی فوٹو گرافی کےلیے استعمال کی جا رہی ہے۔
تاہم ابھی ان ڈرونز کو استعمال کرنے والوں پر پابندی ہے کہ ان کے ڈرون ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
سی اے اے کے ایک ترجمان نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ پابندی اس لیے ہے کہ ابھی ڈرونز میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ رکاوٹوں کو از خود محسوس کر کے اپنا رخ تبدیل کر سکیں۔
ڈاکٹر کوواچ کا کہنا ہے کہ یہ سینسری صلاحیت حاصل ہو جائے تو روبوٹ فضائی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے انتہائی اہم کام کر سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صلاحیت کا حصول انسانیت کے لیے انتہائی مفید اور اہم ہو گا۔
اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’ہمیں معاشرے کے لیے فائدہ مند ہونے اور روبوٹ کے اخلاقی، تعمیری اور مثبت استعمال کی ذمے داری بھی قبول کرنا ہو گی‘۔
No comments: