ایک یورپی خلائی جہاز نے دس سال تک ایک دمدار ستارے کا تعاقب کرنے کے بعد اس کے گرد چکر لگانا شروع کر دیا ہے۔
خلائی جہاز ’روزیٹا‘ نے 67 پی چرنیوموف
جیراسیمینکو نامی اس دمدار ستارے تک پہنچنے کے لیے اپنے چھ تھرسٹر چھ منٹ
تک فائر کیے۔ تاہم زمین پر موجود سائنس دانوں کو 22 صبرآزما منٹوں تک معلوم
نہیں ہو سکا تھا کہ آیا یہ عمل کامیاب ہو گیا ہے یا نہیں۔
یورپی خلائی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل
ژاں ژاک دوردین نے اس موقعے پر کہا: ’منزل کی جانب دس سال، پانچ ماہ اور
چار دن کے سفر، سورج کے گرد پانچ بار چکر کاٹنے اور تقریباً ساڑھے چھ ارب
کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم بالآخر بخوشی یہ اعلان پر سکتے ہیں کہ
ہم پہنچ گئے ہیں۔‘
دمدار ستارے کے چھ ارب کلومیٹر تعاقب کے دوران جہاز نے زمین اور مریخ کی کششِ ثقل کو استعمال کیا۔
جرمنی کے شہر ڈارمشٹاٹ میں واقع یورپی خلائی ادارے
کے سائنس دانوں نے توانائی بچانے کے لیے روزیٹا کے انجنوں کو 31 مہینوں تک
بند رکھا۔ اس سال جنوری میں جہاز کو کامیابی سے دوبارہ ’جگایا‘ گیا۔
67پی کی رفتار 55 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس کی مناسبت سے روزیٹا کی رفتار میں کمی لائی گئی۔
یہ دمدار ستارہ زمین سے 55 کروڑ کلومیٹر دور واقع ہے، اس لیے وہاں سے زمین تک پیغام پہنچنے میں 22 منٹ لگتے ہیں۔
روزیٹا اگلے 15 ماہ تک 67پی کے ساتھ ساتھ چلتا رہے گا اور اس دوران مختلف آلات کی مدد سے اس کا مشاہدہ کرے گا۔
زندگی کے عناصر
اس مشن سے دمدار ستاروں کے بارے میں
معلومات میں خاطرخواہ اضافہ ہو گا، اور یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ نظامِ
شمسی میں زندگی کے اجزائے ترکیبی کی ترسیل میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔
جوں جوں 67پی سورج کے قریب پہنچتا جائے گا، اس کے
پیچھے گیس اور دھول کا بادل بنتا جائے گا، جس سے سائنس دانوں کو اس کی ساخت
کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا۔
نومبر میں روزیٹا سے نکلنے والی ایک گاڑی 67پی پر اترنے کی کوشش کرے گی۔
یہ گاڑی برچھے استعمال کر کے اپنے آپ کو دمدار
ستارے پر مضبوطی سے نصب کرے گی، اور اس دوران سطح میں برمے سے سوراخ کر کے
یہ دیکھنے کی کوشش کرے گی کہ اس کی سطح کے نیچے کیا ہے۔ 67پی کو اس کی
مخصوص شکل کی وجہ سے ’ربڑ کی چٹان‘ کہا جاتا ہے۔
اس مشن سے دمدار ستاروں کے بارے میں معلومات میں
خاطرخواہ اضافہ ہو گا، اور یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ نظامِ شمسی میں
زندگی کے اجزائے ترکیبی کی ترسیل میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔
No comments: