اٹلس پہاڑدنیا بھر میںپھیلے مشہور ترین پہاڑوں میںسے لمبائی میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس کی لمبائی 2،500 کلومیٹر (1،600 میل) ہے۔ اٹلس پہاڑ کی یہ پٹی بحر اوقیانوس یعنی شمال مغربی افریکہ سے شروع ہوتی ہے۔ افریکہ کے عظیم صحرا صحارا کو یہ اٹلس پہاڑوں کی پٹی بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس سے الگ کرتی ہے۔
اٹلس پہاڑوں کی ایک اہم خوبی یہاں کے جانور ہیں جو پوری دنیا میںاور کہیں بھی نہیںپائے جاتے ۔ان مخصوص جانوروں میں مشہور اٹلس کا ریچھ،بربرچیتا، بربربھیڑ، بربرہرن وغیرہ شامل ہیں۔
اٹلس پہاڑ چونکہ تین ممالک میں پھیلا ہوا ہے اورشمال مغرب میں بحر اوقیانوس سے ابتدائ کرتا ہوا مشرق میں بحیرہ روم تک جاپہنچتا ہے۔ پہاڑکی لمبائی 2،500 کلومیٹر (1،600 میل) طویل ہے۔ یہ طویل لمبائی تین افریکی ممالک میں سے گزرتی ہے جن میںمراکش، الجیریااور تیونس تک جا پہنچتی ہے۔ درمیان میں بڑے بڑے ریگستان، علاقے، اور شہر آتے ہیں۔
درمیانی اٹلس پٹی
اٹلس پہاڑ کا یہ حصہ مکمل طور پر مراکش کے سرحد میں پڑتا ہے۔پہاڑ کایہ حصہ مولویا اور قوم ال ریبا دریائوں کے بیچ میںپھیلا ہوا ہے۔
ہائی اٹلس
ہائی اٹلس کو اس کی بلندی کی وجہ سے ئہ نام دیا گیاہے۔ اٹلس پہاڑ کی یہ پٹی مغرب میں بحراوقیانوس سے ابتدائ کرتے ہوئے وسطی مراکش سے ہوتے ہوئے الجیریا کی سرحد تک چلی جاتی ہے۔اٹلس پہاڑوں میںموجود چوٹیوں میں سب سے بڑی چوٹی توبکال پہاڑ کی ہے۔ توبکال پہاڑ کی بلندی4165 میٹر ہے۔
اینٹی اٹلس پہاڑ
اس پہاڑی پٹی کو اینٹی اٹلس پہاڑاس لیے کہا جاتا ہےکہ پہاڑکی یہ پٹی بحر اوقیانوس کی جانب مراکش کے ساتھ ساتھ تقریبا 500 کلومیٹر یا 310 میل تک چلی جاتی ہے۔
صحارااٹلس۔
صحرائے صحارا چونکہ الجیریامیں ہے، اس لیے اٹلس پہاڑ کی یہ اس طرف کوصحاڑا اٹلس کہا جاتا ہے۔ الجیریا میں صحارا اٹلس کا یہ مشرقی حصہ بن جاتاہے۔
ٹیل اٹلس۔
ٹیل اٹلس کی لمبائی 1،500 کلومیٹر (930 میل) ہے.پہاڑکی یہ پٹی بحیرہ روم سے مماثل ہے اور تیونس،الجیریا سے ہوتی ہوئی مراکش تک جا پہنچتی ہے۔
مزید پڑھیںمراکش،گورنمنٹ کی ویب سائٹ , مزید پڑھیں مراکش، نیشن آن لائن کی ویب سائٹ
مزید پڑھیںسی آئی اے۔ ورلڈ فیکٹ بک
مزید پڑھیں
مزید پڑھیں,
اٹلس پہاڑوں کی ایک اہم خوبی یہاں کے جانور ہیں جو پوری دنیا میںاور کہیں بھی نہیںپائے جاتے ۔ان مخصوص جانوروں میں مشہور اٹلس کا ریچھ،بربرچیتا، بربربھیڑ، بربرہرن وغیرہ شامل ہیں۔
اٹلس پہاڑوں کی ارضیات اور قدرتی وسائل
ارضیات دانوں کا کہنا ہے کہ افریکہ میں زیر زمین اٹلس پہاڑ کی تہہ چار سے پانچ ارب سال پرانی ہیں۔ جبکہ موجودہ اٹلس پہاڑ کی تشکیل بہت بعد میں تین مراحل میں ہوئی تھی۔ ان تین مراحل کو بھی ہزاروں سال لگ گئے۔ ارضیات دانوں کا کہنا ہے کہ اٹلس پہاڑ کے اندر قدرتی وسائل کی وافر مقدار موجود ہے۔ اٹلس کوہ کے اندر قدرت نے بے شمار خزانے رکھ دیئے ہیں جن میں، تانبہ، چاندی، پارا، فاسفیٹ، ماربل، معدنی کوئلہ، لوہا اور قدرتی گیس شامل ہیں۔اٹلس پہاڑ کی تقسیم۔
اٹلس پہاڑوں کو مزید چار حصوں میںتقسیم کیا گیاہے، جس میں درمیانی اٹلس پٹی(مراکش)، بلند اٹلس پہاڑ(مراکش)، اٹلس پہاڑ کی مخالف پٹی (Anti Atlas)(مراکش)، اور صحارا اٹلس(الجیریا)،ٹیل اٹلس(مراکش، الجیریا)۔اٹلس پہاڑ چونکہ تین ممالک میں پھیلا ہوا ہے اورشمال مغرب میں بحر اوقیانوس سے ابتدائ کرتا ہوا مشرق میں بحیرہ روم تک جاپہنچتا ہے۔ پہاڑکی لمبائی 2،500 کلومیٹر (1،600 میل) طویل ہے۔ یہ طویل لمبائی تین افریکی ممالک میں سے گزرتی ہے جن میںمراکش، الجیریااور تیونس تک جا پہنچتی ہے۔ درمیان میں بڑے بڑے ریگستان، علاقے، اور شہر آتے ہیں۔
درمیانی اٹلس پٹی
اٹلس پہاڑ کا یہ حصہ مکمل طور پر مراکش کے سرحد میں پڑتا ہے۔پہاڑ کایہ حصہ مولویا اور قوم ال ریبا دریائوں کے بیچ میںپھیلا ہوا ہے۔
ہائی اٹلس
ہائی اٹلس کو اس کی بلندی کی وجہ سے ئہ نام دیا گیاہے۔ اٹلس پہاڑ کی یہ پٹی مغرب میں بحراوقیانوس سے ابتدائ کرتے ہوئے وسطی مراکش سے ہوتے ہوئے الجیریا کی سرحد تک چلی جاتی ہے۔اٹلس پہاڑوں میںموجود چوٹیوں میں سب سے بڑی چوٹی توبکال پہاڑ کی ہے۔ توبکال پہاڑ کی بلندی4165 میٹر ہے۔
اینٹی اٹلس پہاڑ
اس پہاڑی پٹی کو اینٹی اٹلس پہاڑاس لیے کہا جاتا ہےکہ پہاڑکی یہ پٹی بحر اوقیانوس کی جانب مراکش کے ساتھ ساتھ تقریبا 500 کلومیٹر یا 310 میل تک چلی جاتی ہے۔
صحارااٹلس۔
صحرائے صحارا چونکہ الجیریامیں ہے، اس لیے اٹلس پہاڑ کی یہ اس طرف کوصحاڑا اٹلس کہا جاتا ہے۔ الجیریا میں صحارا اٹلس کا یہ مشرقی حصہ بن جاتاہے۔
ٹیل اٹلس۔
ٹیل اٹلس کی لمبائی 1،500 کلومیٹر (930 میل) ہے.پہاڑکی یہ پٹی بحیرہ روم سے مماثل ہے اور تیونس،الجیریا سے ہوتی ہوئی مراکش تک جا پہنچتی ہے۔
مزید نقشےاور لنکس
نیچے دئیے گئے نقشوں میں دکھایا گیا ہے کہ اٹلس پہاڑ، صحارا صحرا اور افریکہ میں مراکش، الجیریااور تیونس کی سرحدیں آپس میںمل رہی ہیں۔مزید پڑھیںمراکش،گورنمنٹ کی ویب سائٹ , مزید پڑھیں مراکش، نیشن آن لائن کی ویب سائٹ
مزید پڑھیںسی آئی اے۔ ورلڈ فیکٹ بک
مزید پڑھیں
مزید پڑھیں,
No comments: