خودی اور غیرت
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خد ا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے (اقبال ؔ )حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کی ایجاد کر دہ اصطلاح ’’خودی‘‘جتنی عظیم ہے، ہمارے زیادہ تر فلاسفہ نے اس کو اتنا ہی ناقابل فہم اور ناقابل عمل بنا دیا ہے۔ بے شک کوئی چیز چاہے کتنی ہی عظیم ترہو مگر سمجھ سے بالا اور عملی زندگی میں نہ آسکے تو وہ بے سود ہو کر رہ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ’’خودی‘‘ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ حضرت علامہ ؒ نے پہلے مصرعہ میں لفظ ’’خودی ‘‘ تو دوسرے مصرعہ میں لفظ ’’خود‘‘ کا خوبصورت امتزاج پیدا کرکے ’’خودی‘‘کے ماخوذ(خودہی)کی جانب لطیف اشارہ دیا ہے۔ عام فہم اور سطحی سوچ میں ’’خودی‘‘سے مرادتکبر ،خود سر، اناپرست یا غرور مراد لیا جاتا ہے۔ مگر خیال رہے کہ حضرت علامہ ؒ کا شمار بذات خود بہت بلند پایہ صوفیاء کرامؒ میں ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے ،جو کہ ہے ، تو پھر ’’تصوف‘‘ اور ’’انا‘‘بالکل متضاد چیزیں ہیں۔واضح رہے جس میں معمولی سی بھی’’انا‘‘ہو یا وہ ’’انا ‘‘کی تعلیم دیتا ہو، تو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر صوفی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر علامہ ؒ کی مراد ’’انایا ذات پسند ی ‘‘ہوتی تو پھر نئی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی، آپ ؒ سیدھے سیدھے ’’انا ‘‘کا لفظ استعمال فرماتے۔علاوہ ازیں یہاں خود ی کو بلند کرنے سے مراد وہ عاجزی ہے جو مقامِ رضاسے آگے مقامِ مرضیہ تک پہنچاتی ہے جس کا ذِکر ہم پچھلی حدیث شریف ﷺ میں پڑھ چکے ہیں۔
یہاں سمجھدار ی اور باریک بینی سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ’’کبر‘‘ ش گ کی ایک عظیم صفت (المتکبر)ہے، جس کا ایک حصہ خالقیت کے دوران آدم میں عود کر آیا۔لہٰذا ’’کبر‘‘ کا وہی اثر و تاثیر جب تک اعتدال میں رہے تو وہ ’’خودی اور خوداری‘‘کہلاتا ہے مگر جب یہی صلاحیت حد سے بڑھ جائے تو ’’ غرور اور گھمنڈ ‘‘کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور مذکورہ حدیث شریف ﷺ کے مطابق تکبر کا نتیجہ تو پستی ہے ۔ حقیقی معنوں میں ’’کبر‘‘(تکبر)خالق کی ذاتی ملکیت (Ownership) اور چادر ہے، مگر جب کوئی انسان اس میں سے اپنے آپ کو حصہ دار ٹھہرا تا ہے تو وہ نہ صرف جھوٹ بول رہا ہوتا ہے بلکہ سخت شرک میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے۔مگربلا شرکت غیرے ش گ کی قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے ’’خودداری او ر غیرت‘ ‘ ایک حقیقت اور عظمت والا مقام ہے، جو ش گ کا پسندیدہ عمل ہے۔
تخلیق کے فوراً بعد جب حضرت آدم ؑ کو خلیفۃ اللہ کا اعلیٰ منصب عطاء ہوا ، تو تمام مخلوق کو امر الٰہی ہوا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو۔ اس امر الٰہی پر تمام مخلوق سجدہ ریز ہو گئی سوائے ’’ عزازیل ‘‘کے، کیونکہ اس نے تکبر کیا اور پھر وہ ’’عزازیل‘‘سے ’’ابلیس‘‘ یعنی مایوس ہوگیا ۔ذرا غور کریں کہ کس طرح عزازیل کے اس سفر تنزلی سے قدرتی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ’’تکبر اگر بیج ہے تو مایوسی اس کا پھل‘‘۔ خیال رہے یہاں حضرت آدم ؑ کو سجدہ ایسے ہی تھا جیسے کہ مسلمان بیت اللہ شریف کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں یعنی سجدہ توش گ معبود حقیقی کو ہی ہوتا ہے، تاہم رخ قبلہ کو ہوتا ہے۔ش گ کے ہر امر کے راز تو انتہائی سمجھ اور سوجھ بوجھ کے متقاضی ہیں جو میری اوقات سے باہر ہیں،تاہم یہاں سجدہ کے اس ایک امر سے درج ذیل مقاصد سمجھ آتے ہیں۔
۱۔ آدم کو تمام مخلوق کا قبلہ ، ایسے ہی ٹھہرا دیا گیا، جیسے مسلمان کے لیے بیت اللہ۔
ب۔ آدم کی تعظیم اور تابعداری گویا ش گ کی تعظیم اور تابعدار ی ٹھہری۔
ج۔ ش گ نے مخلوق کی حکمرانی آدم کے ذمہ لگائی گویا وہ تمام مخلوق میں خلیفۃ اللہ ٹھہرا ۔
د۔ آدم سے افضل کوئی مخلوق نہیں ، گویا آدم تمام مخلوقات سے افضل ترین (احسن تقویم) مخلوق ٹھہرا۔
ر۔ آدم افضل ترین مخلوق ہے تو اس سے برتر ایک ہی ہے جو وحدہ لاشریک لہٗ ہے۔ گویا آدم کو جب بھی حاجت روائی چاہیے، وہ صرف اور صرف اپنے خالق و مالک کی طرف ہی رجوع کرے گا ۔ لہٰذا اس کی خودی (خود داری )کا تقاضا ہے کہ وہ کسی غیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ۔ کیونکہ حاجت اور خودی دو متضاد قوتیں ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے کی ضد بلکہ قیمت ہیں یعنی اگر حاجت پوری کرنی ہے توپھر خودی اس کی قیمت ہے جو اداکرنی ہوگی۔
علاوہ ازیںآدم کی تمام مخلوق میں عظمت کا ثبوت وجہ تخلیق کائنات ﷺ سے اس وقت بھی ثابت ہوا، جب فتح مکہ کے بعد بیت اللہ شریف کو بتوں سے پاک کرکے سیدنا حضرت بلالؓ کو حکم ہوا کہ بیت اللہ شریف کی چھت پر چڑ ھ کر اذان دو۔ آپؓ جب چھت پر چڑھ گئے تو چاروں طرف نظر دوڑا نے کے بعد حیرانی کے عالم میں کھڑے ہوگئے۔ رحمت للعالمین ﷺنے دریافت فرمایا توموذن رسول ﷺگویا ہوئے ، یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، میں نے جب بھی اذان دی بیت اللہ کی طرف رخ کیا۔ آج مجھے یہ عظمت نصیب ہوئی کہ میں بذات خود بیت اللہ پر کھڑا ہوں، تومتفکر ہوں کہ یہاں رخ کس طرف کروں ۔ سید البشر ﷺمسکرائے اور فرمایا آج رخ میری طرف کرلو اور اذان دو،گویا جہاں پر سمتیں مفقود ہوگئیں ، وہاں پر مقام محمود کے وارث ﷺ قطب نما ہوگئے۔سیدنا حضرت بلالؓ جو دنیاوی لحاظ سے بذات خود غریب ترین اور حسب نسب سے عاری ایک حبشی غلام تھے، ان کا عظمتوں والے بیت اللہ شریف پر چڑھ کر اذان دینا ،نہ صرف حسب نسب پر فخر کا قتل اور تقو یٰ کی عظمت کا ثبوت تھا بلکہ رخِ بلالی ،رحمت للعالمین ﷺکی طرف ہونے کا مطلب ایک بار پھر سجدہ آدم کی یاد آوری بھی تھا کہ ش گ کے بعد آدم ہی خلیفۃ اللہ ہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہادی برحق ﷺ کا سینہ امت کی محبت میں ایسے کھولتاتھا جیسے تندور پر ابلتی ہوئی ہنڈیا۔ گویا امت اور امت کی فکر ہر وقت آپ ﷺ کے قلب اور سینہ میں موجود ہے۔ دوسری جانب اس حدیث قدسی کو دیکھتے ہیں کہ جس میں مخبر صادق ﷺ فرماتے ہیں ،(تذکرۃ الموضوعات)
لَا یَسَعْنِیَ اَرْضِیْ وَلَاسَمَآءِیْ وَلٰکِنْ یَسَعْنِیْ قَلْبَ عَبْدِی الْمُؤْمِنِ ’’میں(اللہ) اپنی زمین اور آسمان میں نہیں سما سکتا ہاں میں اپنے بندہ مومن کے دل میں سما سکتا ہوں‘‘
انسان، مسلمان اور مومن کا تقابل
ایک عام انسان اور مسلمان کے تقابل میں مومن کی شان اور عظمت کا اندازہ کریں کہ جس کے قلب میں خالق و مالک سما سکتا ہے ۔ یہ سمجھنے کے بعد اس بات پر بھی غور کیجئے کہ سید المرسلین ﷺ جو تمام مومنین کے بھی سر دار ہیں، کے قلب مبارک میں ش گ اورامت دونوں بیک وقت موجود ہیں ۔اس مقام پر استاد محترم فرماتے ہیں کہ گویااس سے بڑی خوشخبری ہو ہی نہیں سکتی کہ قلب رسول ﷺ میں امتی، ش گ سے متصل اور پڑوسی ہی نہیں بلکہ ہم نشین بھی ہیں۔ اگر یہ نسبت ذہن نشین رہے تو پھر خودی(خودداری) کے لحاظ سے امتی تو تمام انسانوں میں بہترین (Supreme)مقام پر فائز ہیں۔اس تمام عبارت کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ش گ کی صفات کا وہ حصہ جو دورانِ تخلیق آدم میں عود کر آیا، اسی کی برکت ’’خود داری اور غیرت‘‘ ایک ’’خودی‘‘کی شکل میں فطرتی طور پرانسان میں موجود ہے ۔ یہی ’’خودی اورغیرت‘‘جب اعتدال میں ہوتی ہے توبشر کی عظمتوں کی نشان بنتی ہے، مگر جب اعتدال سے ہٹ جائے تو’’ تکبر اور غرور‘‘ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ خودی اور غیرت جیسے مقدس مقام کو مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ بیت اللہ شریف تمام مسلمانوں کا قبلہ اور دعاؤں کی قبولیت کا مرکز ہے، مگر اگر بیت اللہ شریف دعاؤں کے لیے کسی ذیلی مسجد ، مزاریا درگاہ کا مرہون منت ہوجائے تو وہ اپنی عظمت کے مقام سے ہٹ جائے گا۔ بعینہٖ آدم غیراللہ کے آگے جھک جائے تو ’’خودی اور غیرت‘‘ کے مقام سے گر جائے گا، جو شرک کے زمرے میں آئے گا ۔ لہٰذا اس فطرتی خوبی ’’خودی و غیرت ‘‘کو جتنا بلند کرتا جائے گا اتنا ہی عظمت والا ہو کر قربت الہٰ حاصل کر جائے گا اور علامہ ؒ کے شعر میں درج ’’مقام رضا ‘‘ سے بھی آگے ’’مقام مرضیہ‘‘ پائے گا ۔
.This article is taken by the book Tafheem-ul-Bashar
.Tafheem-ul-Bashar, written by Dr. Muhammad Altaf Tahir
No comments: